Wednesday 16 April 2014

طب معصومین علیہ السلام



 از: سید سجاد مہدی

طب کے حوالے سے اَئمہ کی روایات پر تحقیق ہونی چاہیے اورمستند اداروں میں ریسرچ کی جانی چاہیے۔ کچھ اقوال پر ریسر کی گئی جس سے کہ ان کی تصدیق ہوئی ہے۔ طب معصومین میں ہر مرض کا علاج موجود ہے۔ علوم کی ابتداء معصومین سے ہی ہوئی ہے۔ نہ کہ فقط دینی بلکہ سماجی حتی کہ سائنسی علوم کا محور بھی معصومین ؑ کی ذات گرامی ہے۔ طبِ معصومین ؑ کے دقیق مطالعہ سے کینسر جیسے موذی مرض سے بھی شفاء حاصل کی جاسکتی ہے۔ طب معصومین ؑ صرف جڑی بوٹیوں کے استعمال کا نام نہیں ہے بلکہ باقاعدہ میڈیکل سائنس کی طرح اس میں کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے ادویات تیار کی جاتی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ کیمیکل سائنس میں ہم غلطی کرو اور سیکھو کے عمل سے گزرتے ہوئے بہتر نتائج کی طرف اپنا سفر جاری رکھتے ہیں جب کہ اقوالِ معصومین ؑ کی روائت حتمی ہوتی ہے یہ کسی تجربے کے محتاج نہیں ہے۔


صحت و تندرستی وہ نعمت ہے جس کی کوئی قیمت ادا نہیں کرسکتا۔ خداوند متعال نے ہمیں ایک تندرست اور سالم بدن کی شکل میں جو نعمت عطاء کی ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہمیں اپنی صحت کے حوالے سے کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر انبیاء کرام اور اَئمہ علیہ السلام کے بارے میں بہت سی نصیحتوں کی صورت میں احادیث بیان کی ہیں۔ خداوند متعال نے ہر پیدا کی ہوئی شے میں کوئی نہ کوئی حکمت رکھی ہے۔ یہ حکمتیں ہمیں تجربات یا پھر خداءئی پیشواؤں کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں۔ انہی احادیث کو اپنے پڑھنے والوں کے لئے پیش کیا جارہا ہے

بشری علوم کے درمیان طب ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے اس لیے کہ تمام علوم کا مقصد انسانی زندگی سے بہتر طور پر استفادہ کرنا ہے اور یہ کام صحت و تندرستی کے بغیر ناممکن ہے۔ اس لئے امام باقر ؑ فرماتے ہیں: ’’جان لو ! نہ کوئی علم تندرستی کو تلاش کرنے کی مانند اہم ہے نہ کوئی تندرستی، دل کی تندرستی کی طرح اہم ہیں۔ مذکورہ حدیث سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں روح کی طبابت جسم کی طبابت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور جسم کی طبابت بقیہ علوم کی نسبت زیادہ مہم ہے۔ اسی طرح حدیث نبویؐ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے آنحضورؐ فرماتے ہیں: ’علم کی دو قسمیں ہیں: دین کا علم اور بدن کا علم

خداوند عالم ہی نے دواؤں میں خاصیت رکھتی اور اسی دنیا کے اندر ہر درد کی دوا پیدا کی اور انسان میں صلاحیت پیدا کی کہ وہ درد اور دوا کو پہچانے اور سمجھ سکے کہ کس طرح کس دوا کے ذریعے علاج کیا جائے اور انسان کو طبیب اور شافی (شفا دینے والا) کے نام کا مصداق بنایا جس طرح انبیائے الہٰی کو روحانی بیماریوں کے لیے انہی ناموں سے یاد کیا۔

طبی احادیث کی تحقیق صدوق کی نظر میں

شیعہ محدثین میں سے بزرگوار شخصیت محمد بن علی بن بابویہ قمی، جو شیخ صدوق کے نام سے مشہور ہیں طبی احادیث پر اس انداز سے تبصرہ کرتے ہیں کہ خاص مورد کے سوا کسی حدیث پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ وہ لکھتے ہیں: 
طبی احادیث اور روایت کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ مذکورہ احادیث چند طرح کی ہیں: ’’بعض احادیث مکے اور مدینے کی آب و ہوا (موسم) کے مطابق تھیں کہ انہیں کسی دوسرے علاقے میں قابل عمل سمجھنا غلط ہے۔‘‘ ’’بعض احادیث کسی فرد خاص جس نے امام سے سوال کیا تھا اسی کے مزاج اور طبیعت سے مطابقت رکھتی ہے اور وہ فقط اس شخص کے لئے قابل استفادہ ہے کیونکہ امام اس کی طبیعت سے واقف تھے۔‘‘ ’’بعض احادیث دشمنوں کی گھڑی ہوئی ہیں جو انہوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اَئمہ کے نام سے احادیث میں شامل کر دیں۔‘‘ ’’بعض احادیث میں راوی حدیث سے بھول چوک ہوگئی ہے۔‘‘ ’’بعض احادیث میں کچھ حدیث ذکر ہوئی ہے اور کچھ ذکر نہیں ہوئی۔‘‘
لیکن شہد کے بارے میں جو روایت ہے کہ ہر درد کی دوا ہے، یہ ایک صحیح روایت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ شہد ہر اس بیماری کا علاج ہے جو ٹھنڈے مزاج کی وجہ سے وجود میں آئی ہو۔
اسی طرح جو کچھ بواسیر کے بارے میں ہے کہ ٹھنڈے پانی سے استنجاء کرنا چاہیے اس مورد میں ہے کہ جب کسی شخص کو گرمئ مزاج کی وجہ سے بواسیر ہوئی ہو۔
اسی طرح بیگن کے بارے میں ہے کہ بیگن بیماریوں کا علاج ہے ان دنوں اس کا استعمال علاج ہے جب کھجور پک کر تیار ہوجائیں اور جو کوئی کھجور کھئے اس کے لئے بیگن شفا ہے نہ ہر کسی کے لئے اور مذکورہ ایام میں نہ کسی اور ایام میں۔
آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ بیماری کے علاج کے طور پر اَئمہ ؑ سے ہم تک پہنچا ہے وہ آیات کے مضامین، قرآنی سورے اور دعائیں ہیں جو اپنے مضبوط اور محکم سند اور صحیح احادیثی سلسلوں کی بنا پر قابل قبول ہے۔ (الاعتقادت صدوق ص۱۱۵)

:طبی احادیث کی اقسام

اس سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ طبی احادیث کو تین اقسام میں تقسیم کی جاسکتا ہے:
پہلی قسم: وہ احادیث جس میں دینی رہنما کا معجزہ بیماری کے علاج کا باعث بنا، مثلا قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: یعنی خداوند عالم کے اذن سے مادرزد نابینا اور کوڑھ کے مرض کو شفا دیتا ہوں۔
دوسری قسم: وہ احادیث جو بیماری سے بچنے کے احتیاطی تدابیر کے طور پر ہیں۔
تیسری قسم: وہ احادیث جو بیماریوں کے علاج کے لئے وارد ہوئی ہیں ایسی احادیث کی بھی دو اقسام ہیں:
اوّل: قرآنی آیات اور دعاؤں کے ذریعے شفا حاصل کرنا۔
دوم: دواؤں کے ذریعے علاج کرنا۔
وہ احادیث جو معجزے کے ذریعے شفا اور علاج کے بارے میں ہیں وہ ہماری بحث سے خارج ہیں۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:کسی بھی آبادی کے لوگ تین قسم گروہ سے بے نیاز نہیں ہوسکتے کہ اپنی دنیا و آخرت کے لئے ان سے مدد طلب کریں، اور اگر یہ تین گروہ کسی آبادی میں نہیں ہوں تو اس آبادی کے لئے بدبختی ہے فقیہ دانا اور پرہیزگار، نیک صفت حکمران اور طبیب ماہر اور قابل اعتماد(تحف العقول) ایک اور جگہ فرماتے ہیں: گرم کو ٹھنڈے سے، ٹھنڈے کو گرم سے، خشک کو تر سے تر کو خشک سے علاج کرتا ہے اور نتیجہ خدا کے ہاتھ میں دے دیتا ہوں اور جو کچھ رسول ؐ نے فرمایا ہے اس پر عمل پیرا ہوتا ہوں اور میں یہ جانتا ہوں کہ معدہ تمام بیماریوں کا گھر اور فقط پرہیز اس کا علاج ہے اور جسم کو جس چیز کا وہ عادی ہوگیا ہے اس پر چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘

کوئی بیماری ناقابل علاج نہیں:

رسول ؐ نے فرمایا: ہر بیماری کا علاج ہے، پس جب دوا بیمار تک پہنچتی ہے تو وہ خداوند عالم کے حکیم سے شفایاب ہوجاتا ہے۔(صحیح مسلم) ایک اور مقام پر فرمایا: جس نے بیماری کو خلق کیا ہے اس نے علاج کو بھی خلق کیا ہے۔(دعائم الاسلام) امام علی ؑ نے فرمایا: ’ہر زندہ کے لئے بیماری ہے اور ہر بیماری کے لیے علاج ہے۔(غرر الحکم)

ضروری مواقع پر دوا کا استعمال:

بہت سی روایات جو اہل بیت علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں اس میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ جب تک بیمار کا بدن بیماری کو تحمل اور برداشت کرسکتا ہے ڈاکٹر سے رجوع نہ کیا جائے، کیونکہ غیر ضروری مواقع پر دوا جسم کے لئے نقصان دہ ہے اسی لئے امام علی ؑ فرماتے ہیں: ’’حتی الامکان اپنی بیماری کا تحمل کرو‘‘ اور امام کاظم ؑ سے روایت ہے کہ: یعنی جب تک کہ تمہاری بیماری شدید نہ ہوجائے، ڈاکٹروں کے علاج کے چکر میں مت پھنسو! کیونکہ علاج عمارت بنانے کی طرح ہے کہ انسان تھوڑا سا تعمیر کرنا چاہے تو بہت زیادہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘

بیمار کو اُمیدوار کرنا:

مایوسی اور نااُمیدی کو شدید کر دیتی ہے اور بیماری سے زیادہ بیمار کے لئے نااُمیدی اذیت ناک ہے اسی لئے مولائے کائنات فرماتے ہیں: ’’سب سے بڑی مصیبت نااُمیدی ہے۔‘‘ بلکہ بعض اوقات تو نا اُمیدی بیمار کی موت کا باعث بنتی ہے جیسا کہ مولائے کائنات فرماتے ہیں: ’’نااُمیدی، نااُمید شخص کی قاتل ہے۔‘‘

بیماری کی تشخیص:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: کسی کا علاج اس وقت تک مت کرو جب تک کہ بیماری کی تشخیص نہ کر لو۔ امام سجاد ؑ : جس کی بیماری کی تشخیص نہ ہوئی ہو دوا اسے برباد کر دے گی۔

وہ باتیں جو انسان کو ڈاکٹر سے بے نیاز کر دیتی ہیں:

حضرت علی ؑ نے اپنے بیٹے حسن ؑ سے فرمایا: اے میرے بیٹے! کیا تمہیں چار باتیں سکھاؤں جو تمہیں طب سے بے نیاز کر دیں؟ امام حسن ؑ نے فرمایا: کیوں نہیں ضرور سکھائیں امام نے فرمایا: ’’دسترخوان پر فقط اس وقت بیٹھو جب تم بھوکے ہو، اور سیر ہونے سے پہلے دسترخوان سے اٹھ جاؤ، اچھی طرح چباؤ، اور سونے سے پہلے بیت الخلاء جاؤ۔ اگر ان باتوں پر عمل پیرا ہوگے تو کبھی طبیب کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔(الخصال)

راہ تندرستی:

رسول ؐ : ہر کام کا کوئی نہ کوئی طریقہ ہے اور تندرست رہنے کے چار طریقے ہیں: کم بولنا، کم سونا، کم چلنا اور کم کھانا۔ (تحف العقول) روایت ہے کہ جب بھوکے ہو تو کھاؤ، جب پیاسے ہو تو پیو، جب پیشاب لگے تو کر لو، بحد ضرورت ہمبستری کرو، جب نیند آئے سوجاؤ کیونکہ یہ باتیں تندرستی کی ضامن ہیں۔

طول عمر کا راز:

رسول ؐ فرماتے ہیں: چار چیزیں عمر بڑھاتی ہیں، دوشیزہ لڑکی سے شادی کرنا، گرم پانی سے نہانا، بائیں پہلو پر سونا، اور صبح سویرے سیب کھانا۔امام علی ؑ : جو کوئی جاودانگی کا خواہاں ہے (البتہ غیر خدا کے لیے جاودانگی نہیں) ناشتہ جلدی کرے، رات کا کھانا دیر سے کھائے، عورتوں سے مقاربت کم کرے اور ’’ردائے سبک ‘‘ (کاندھوں پر قرض کا بوجھ کم ہونا)پہنے۔ فرمایا: کھانا کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھوں کا دھونا طولانی عمر کا باعث ہے۔

جو چیزیں وقت سے پہلے بڑھاپے کا باعث ہیں
:

رسول ؐ نے فرمایا: دس چیزیں وقت سے پہلے بڑھاپے کا باعث ہیں: عورتوں کے ساتھ زیادہ مقاربت کرنا، گیلی مٹی سے سر دھونا، بیت الخلاء میں قضائے حاجت کے وقت گفتگو کرنا، کثرت سے خوشبو استعمال کرنا، رات کو پانی پینا، عورت کی شرمگاہ پر نگاہ کرنا۔ منہ کے بل سونا، رات کو کھڑے ہو کر پانی پینا، آستین سے منہ پونچھنا۔ ایک اور مقام پر فرمایا: رات کے کھانے کو ترک نہ کرو، ہر چند کے کہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، مجھے ڈر ہے کہ رات کا کھانا چھوڑنے سے میری امت کے لوگوں پر بڑھاپا اور بوسیدگی (ناتوانائی) غلبہ کر لے کیونکہ رات کا کھانا پیر و جوان سب کے لئے قوت کا باعث ہے۔ امام جعفر صادق ؑ : چار چیزیں انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں: ’’خشک گوشت کھانا، مرطوب جگہ پر بیٹھنا، بھرے پیٹ مقاربت کرنا اور بوڑھی عورتوں سے مقاربت کرنا۔‘‘

غم اور بیماری:

رسول ؐ نے فرمایا: غم (اور گھبراہٹ پریشانی) آدھا بڑھاپا ہے۔ امام علی ؑ : غم دو بڑھاپے میں سے ایک ہے۔
سردی سے بچاؤ اور اس کا استقبال:
امام علی ؑ : سردی کے آغاز میں اس سے بچو اور آخر میں اس کا استقبال کرو کیونکہ سردی جسم کے ساتھ وہی کام کرتی ہے جو درختوں کے ساتھ کرتی ہے کہ آغاز میں اسے جلا دیتی ہے اور آخر میں اس کی شاخیں اور پتے اگاتی ہے۔ (نہج البلاغہ)

خوشبو کے خواص:

رسول : ’خوشبو، دل کو قوت بخشتی ہے۔‘ ’’جو کوئی خوشبو لگاتا ہے اس کی عقل بڑھ جاتی ہے۔‘‘

صفائی اور پاکیزگی:

رسول ؐ: جو کوئی کپڑے پہنتا ہے اسے صاف بھی رکھے۔ امام علی ؑ : جو کوئی اپنے کپڑے دھوتا ہے اس کی پریشانی اور غم و اندوہ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ رسول ؐ نے فرمایا: ’’چکنائی اور گوشت کی بو کے ساتھ آلودہ رومال گھر میں نہ رکھو، کیونکہ وہ شیطان کی آماجگاہ ہے۔

برتن کا ڈھکنا:

امام محمد باقر ؑ : رسول اکرم ؐ ڈھکن والے برتن کو پسند فرماتے تھے۔ رسول ؐ نے فرمایا: اپنے گھروں کے دروازوے بند رکھو، اپنے برتنوں کو الٹ کر رکھا کرو، مشکوں کے دہانے بند رکھا کرو اور اپنے چراغوں کو بجھا دیا کرو کیونکہ انہیں (شیاطین کو) اجازت نہیں دی گئی کہ تمہارے بند دروازوں کو دیکھ کر دیواروں سے آجائیں۔(مسند بن حنبل)

سر کو سدر (بیری کے پتوں) سے دھونا:

امام علی ؑ : جب خداوند عالم نے رسول اکرم ؐ اعلانیہ دعوت اسلام دینے کا حکم دیا اور وحی آشکار ہوگئی، رسول ؐنے مسلمانوں کی قلت اور کافروں کی کثرت کو دیکھا تو رسول اکرمؐ شدت سے رنجیدہ ہوئے اس وقت خداوند عالم نے حضرت جبرئیل ؑ سدرۃ المنتہٰی سے تھوڑا سادر (بیری کے پتے) دے کر بھیجا رسول اکرم ؐ نے اس سے اپنا سر دھو لیا تو ان کا غم و اندوہ برطرف ہوگیا۔ (الکافی)

مونچھیں تراشنا:

رسول ؐ: جو کوئی جمعے کے دن تھوڑی سے مونچھیں اور تھوڑے سے ناخن تراشے گا خداوند اس کے جسم میں شفا قرار دے گا اور اس کی بیماری کو جسم سے نکال دے گا۔(الفردوس)

ناخن تراشنا:

رسول ؐ: ناخن تراشنا اور چھوٹے کرنا بڑی بیماریوں سے بچاتے ہیں اور روزی میں فراوانی کرتی ہے۔(الکافی)

جوتے اور تندرستی
:

امام حسین ؑ نے مجھ سے فرمایا: میرے بیٹے!۔۔۔ اچھے جوتے پہنو کیونکہ جوتے مرد کے پاؤں کی خلخال (یعنی پاؤں کی زینت) ہیں۔امام صادق ؑ : جوتے پہننے کی عادت بری موت سے بچاتی ہے۔
امام صادق ؑ نے کسی صحابی کو دیکھا جس نے کالا جوتا پہنا ہوا تھا تو فرمایا: تم نے کالا جوتا کیوں پہنا ہے کیا تم نہیں جانتے کہ کالا جوتا آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے، مردوں کا آلہ تناسل کو ڈھیلا کرتا ہے کالا جوتا دوسرے جوتوں کی نسبت زیادہ مہنگا بھی ہے اور کوئی بھی اسے نہیں پہنتا مگر یہ کہ یہ جوتا پہن کر اس میں تکبر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔(الکافی) 

بیماری

بیماری کی حکمت:

امام صادق علیہ السلام بیماری کی مصلحت کے بارے میں فرماتے ہیں: بیماری چند طرح کی ہوتی ہے: وہ بیماری جو آزمائش ہے، وہ بیماری جو سزا ہے وہ بیماری جو موت کا سبب بنتی ہے۔
بیماری کے علاج میں اسلامی روایات کی رو سے دوا کے علاوہ بھی بہت سے عوامل کارگر ہیں مثلاًدعا، صدقہ اور اسی طرح کے دوسرے عوامل کہ جس کی شناخت علم طب کے لئے ناممکن ہے۔

روح کی پاکیزگی:

گناہگاروں کی بیماری کے اثرات غفلت کے پردوں کو چاک کرنے، ضمیر کو بیدار کرنے اور ان کی روح کو آلودگیوں سے پاک کرنے کی صورت میں مرتب ہوتے ہیں جیسا کہ امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں: ’’جب خداوند کسی بندے کو بیماری میں مبتلا کرتا ہے تو اس کی بیماری کی مقدار میں اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔‘‘

انسان کی ترقی و کمال:

متقی اور پرہیزگار افراد کی بیماری خدا کی بارگاہ میں ان کے درجات کو بڑھانے کا باعث ہے اور ان کے کمال و تکمیل درجات کا سبب ہے جیسا کہ رسول ؐ سے نقل ہے فرمایا: ’’بعض اوقات خدا کے پاس کسی شخص کے لئے کوئی درجہ ہے جو اپنے عمل کے ذریعے اس درجے تک نہیں پہنچ پاتا یہاں تک کہ وہ کسی مرض میں مبتلا کیا جائے اور اس آزمائش کے ذریعے اس درجے تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ 
بیماری کے تربیتی اثرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ چاہنا کہ انسان ہمیشہ ہمیشہ صحت مند رہے اور کبھی بیمار نہ پڑے یہ بات روایات معصومین ؑ کی نظر میں ناپسندیدہ ہے رسول اکرم ؐ اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ انسان ہمیشہ تندرست رہے۔‘‘ اسی طرح ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ: ’’خداوند عالم اس بدطینت اور بدکردار کو جو کسی جانی یا مالی آزمائش میں گرفتار نہیں ہوتا پسند نہیں کرتا۔‘‘ لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ہر بیماری، ہر تندرستی کی طرح اثر تربیتی نہیں رکھتی اور ہر بیماری کا مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اسی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس طرح خدا سے دعا گو ہوئے: ’’اے پروردگار! مجھے ایسی بیماری نہ دینا کہ میں بستر سے لگ جاؤں (دوسروں کا محتاج ہوجاؤں) اور نہ وہ تندرستی دینا کہ میں تجھے بھلا دوں بلکہ درمیانی حالت میں قرار دے کہ کبھی بیمار ہوجاؤں تو کبھی تندرست ہوجاؤں تاکہ تندرستی پر تیرا شکر کروں۔‘‘

موت کا سبب:

بعض اوقات بیماری میں، نہ کوئی تربیتی مصلحت ہوتی ہے اور نہ سزا، بلکہ وہ بیماری موت کا سبب بنتی ہے لیکن خدا کے نظام میں موت بھی بغیر حکمت کے نہیں ہے کیونکہ سب کو مرنا ہے: ’’ہر کسی کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘ احادیثِ اسلامی کی رو سے ہر بیماری کا کوئی نہ کوئی علاج ہے اور فقط وہ بیماری جس کا علاج نہیں موت ہے حدیث نبوی ؐ میں وارد ہے کہ: ’’خداوند عالم نے کسی بیماری کو نازل نہیں کیا مگر یہ کہ اس کا علاج بھی نازل کیا بعض افراد اس علاج کے بارے میں جانتے ہیں اور بعض لوگ نہیں جانتے فقط موت لاعلاج ہے۔‘‘
بیماری کی تعریف

بدن کا قید خانہ:

رسولؐ: ہر دن انسان کے انجام شدہ اعمال پر مہر لگائی جاتی ہے جب کوئی بندہ بیمار پڑجاتا ہے تو فرشتے خدا سے کہتے ہیں: اے پروردگار! فلاں بندے کو تو نے قید کیا ہوا ہے! خدا وند عالم اس وقت فرماتا ہے: ’’اس کے لئے وہی اعمال لکھ لو جو وہ تندرستی کے وقت انجام دیتا تھا اور اس پر مہر لگاتے رہو جب تک وہ اس بیماری سے صحت یاب ہوجائے یا مرجائے۔‘‘

سب سے بڑی مصیبت:

امام علی ؑ : ہاں! ایک مصیبت فقر و تنگدستی ہے۔ اس سے بھی بڑی مصیبت جسمانی بیماری ہے اور اس بھی بڑی مصیبت بیماری دل (روحانی بیماری) ہے۔

کچھ بیماریوں کی مصلحت کے بارے میں:

امام صادق ؑ سے کسی دھریہ نے پوچھا تھا کہ چھوٹا بچہ جو بیمار پڑجاتا نہ اس نے کوئی گناہ کیا ہے یہ جرم پھر کس وجہ سے وہ اتنی تکلیفیں اٹھاتا ہے؟ امام ؑ نے فرمایا: بیماری کی چند اقسام ہیں: وہ بیماری جو آزمائش کا سبب بنے، وہ بیماری جو سزا ہو اور وہ بیماری جو موت کا سبب ہو لیکن تم دعویٰ کرتے ہو کہ یہ بچہ نامناسب خوراک سے آلودگی کی بناء پر اور وہ بیماری جو اس کی ماں کو تھی اس سے یہ بچہ بیمار پڑا ہے اور سمجھتے ہو کہ جو کوئی بھی اپنی جسمانی نگہداشت کے بارے میں بہت زیادہ محتاط ہو اپنا بہت خیال رکھے کھانے پینے میں فائدہ مند اور ضرر رساں چیز کی طرف پوری طرح توجہ رکھے اور فائدہ مند خوراک استعمال کرے وہ بیمار نہیں پڑے گا۔ تم تو ان لوگوں جیسا نظریہ رکھتے ہو جو سمجھتے ہیں کہ بیماری اور موت خوراک کی وجہ سے پیش آتی ہے۔
ارسطو، استاد اطباء تھا، افلاطون بہترین حکیموں میں سے تھا اور جالینوس بوڑھا اور تجربہ کار تھا لیکن اس کے باوجود اپنی موت کو نہیں ٹال سکا، سب مرگئے، جب کہ اپنا بہت خیال رکھتے تھے اور ہر کھانا، پینا سوچ سمجھ کر کرتے تھے کہ کیا بدن کے لئے سازگار ہے اور کیا ناساز، یہ سوچنے اور عمل کرنے میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
کتنے ہی بیماری ایسے ہیں کہ جس کی بیماری علاج سے بڑھتی ہی رہی اور کتنے ہی ماہر اور زبردست طبیب جو علاج اور دوا کے بارے میں پوری آگاہی رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ مرگئے۔ اس کے مقابلے پر کتنے ہی طب سے ناآشنا جو طبیب سے زیادہ طولانی عمر کرنے والے ہیں۔ نہیں! ان ماہر طبیبوں کو جب موت کا پیغام آیا تو ان کے علم نے کوئی فائدہ نہیں دیا اور نہ وہ شخص جو علم طب سے نابلد تھا نہ اس کے جہل نے اس کی طولانی عمر کو کوئی نقصان پہنچایا۔
بیماری کے فوائد

سزا:

رسول ؐ: بیماری زمین پر خدا کا تازیانہ ہے کہ جس کے ذریعے اپنے بندوں کو تنبیہ کرتا ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا: اگر تین چیزیں انسان میں نہ ہوتیں تو کوئی چیز اس کا سر نہیں جھکا سکتی تھی: بیماری، فقر، تنگدستی اور موت یہ سب انسان میں ہیں اس کے باوجود وہ گستاخ اور نافرمان ہے۔

کفارہ:

رسول ؐ: خداوند عالم جس مومن کو بیماری میں مبتلا کرتا ہے اور پھر صحتیاب فرماتا ہے تو یہ بیماری اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ اور لاحقہ زندگی کے لئے نصیحت ہے۔

احترام:

رسولؐ: انسان بعض اوقات خدا کے نزدیک ایسا مرتبہ رکھتا ہے کہ وہ اپنے عمل کے ذریعے اس مرتبہ (درجے) تک نہیں پہنچتا یہاں تک کہ وہ کسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہو اور اس بیماری کے ذریعے آزمایا جائے تو اس بیماری کے وسیلے سے اس مرتبے تک پہنچ سکتا ہے۔

جزا:

رسولؐ: مومن سے اور بیماری میں اس کی بے تابی سے حیران ہوں اگر اسے پتہ ہوتا کہ اس کی بیماری کی کیا جزا ہے تو پسند کرتا کہ ہمیشہ بیمار رہے یہاں تک کہ وہ خدا سے ملاقات کے لئے چلا جائے۔
امام حسین ؑ : حضرت علی ؑ نے سلمان فارسی کی عیادت کی اور فرمایا: اے ابوعبداللہ! بیماری میں تمہارا کیا حال ہے؟
سلمانؓ نے عرض کی: اے امیرالمومنین ؑ ! میں کثرت سے خدا کا شکرادا کررہا ہوں اور دل کی رنجیدگی کی آپ سے شکایت کرتا ہوں۔
حضرت علی ؑ نے فرمایا: اے ابو عبداللہ! رنجیدہ نہ ہو، کیونکہ کوئی بھی ہمارے شیعوں میں سے ایسا نہیں کہ وہ کسی بیماری میں گرفتار ہو مگر یہ کہ کوئی گناہ اس سے کبھی سرزد ہو تو بیماری کے وسیلے سے معاف ہوجائے اور وہ بیماری اس کے پاک کرنے کا سبب ہے۔ تب سلمانؓ نے کہا: آپ جو کہہ رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بیماری میں ہمیں گناہوں سے پاک کرنے کے سبب کے سوا کچھ نہیں۔
مولا ؑ نے فرمایا: اے سلمان! بیماری پر صبر کے ذریعے، خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑانے سے، دعا کرنے سے تمہارے لیے ثواب لکھا جاتا ہے اور انہی کاموں کی وجہ سے تمہاریے نامہ عمل میں نیکی لکھی جاتی ہے اور تمہارے درجات بلند ہوتے ہیں لیکن بیماری وہ فقط تمہارے گناہوں سے پاک ہونا اور ایک کفارہ ہے۔
سلمان نے یہ سننے کے بعد حضرت علی ؑ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور گریہ کیا۔ اور کہا: اے امیرالمومنین ؑ ! اگر آپ نہ ہوتے تو کون یہ باتیں ہمیں بتاتا۔
الکافی:ابوحمزہ سے نقل ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: ایک رات کا بخار ایک سال کی عبادت کے برابر ہے۔ دو رات کا بخار دو سال کی عبادت کے برابر ہے اور تین رات کا بخار ستر سال کی عبادت کے برابر ہے۔
میں نے پوچھا: اگر کسی کی عمر ستر سال تک پہنچے ہی نہ تو؟
امام ؑ نے فرمایا: تو پھر یہ ثواب اس کے ماں باپ تک پہنچے گا۔
میں نے پوچھا: اگر وہ دونوں بھی ستر سال تک نہ پہنچے ہوں تو؟
امام ؑ نے فرمایا: تو پھر یہ ثواب اس کے رشتہ داروں کو ملے گا۔
میں نے پوچھا: اگر وہ بھی ستر سال کی عمر نہ پائیں تو؟
امام ؑ نے فرمایا: تو پھر یہ ثواب اس کے ہمسایوں تک پہنچے گا۔
الفقہ المنسوب الامام الرضا علیہ السلام: روایت ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو دنیا میں اذیتوں اور بیماریوں کے شکار ہونے والے، بیمار کے لئے بے تحاشہ ثواب کو دیکھیں گے تو آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں ان کا گوشت قینچی سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا۔
جزا اس عمل پر جو تندرستی میں انجام دیتا تھا:
رسولؐ: جو کوئی بیمار پڑجائے یا سفر کرے (وہ اعمال جو بیماری یا سفر کی بناء پر ترک کر دیے) تو اسے وہی ثواب ملے گا جو وہ تندرستی یا وطن میں ہوتے ہوئے انجام دیا کرتا تھا۔ایک اور مقام پر فرمایا: کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جو جسمانی بیماری میں مبتلا ہو مگر یہ کہ خداوند عالم اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس کے لئے وہ بہترین عمل جو وہ صحتمندی کے وقت انجام دیتا تھا لکھو۔
بیمار کے فرائض

بیماری کو پوشیدہ رکھنا:

رسولؐ: نیکی کے خزانوں میں سے ایک خزانہ، مصیبتوں، بیماریوں اور صدقے کو پوشیدہ رکھنا ہے۔
رسول ؐ نے فرمایا: خداوند عالم فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندے کو کسی بیماری اور مصیبت میں گرفتار کرتا ہوں اور وہ تین دن سے پہلے اپنی بیماری کو آشکار کر دے تو اس نے مجھ سے شکایت کی ہے۔
ربیع الابرار میں عمران بن حصین نے رسول اکرم ؐ: سے عرض کی: اے رسولؐ: میرے پاس کچھ ایسے مرد آتے تھے کہ ان سے زیادہ خوبصورت اور ان سے زیادہ خوشبودار میں نے نہیں دیکھا لیکن کچھ عرصے بعد انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔
رسول ؐ نے پوچھا: کیا کوئی زخم تمہیں لگا تھا جسے تم نے پوشیدہ رکھا تھا؟
اس نے کہا: ہاں یارسولؐ۔
رسول ؐ نے فرمایا: پھر تم نے اسے آشکار کر دیا؟
رسولؐنے فرمایا: اگر تم اسے اسی طرح پوشیدہ رکھتے تو جب تک تم زندہ رہتے فرشتے تمہارے دیدار کے لئے آتے رہتے۔ (راوی کہتا ہے) وہ زخم مجھے خدا کی راہ میں جہاد میں لگا تھا۔
امام علی ؑ : جو کوئی بیماری میں گرفتار ہوتا ہے وہ لوگوں سے اسے پوشیدہ رکھے اور فقط خدا کی بارگاہ میں شکایت کرے تو خداوند عالم پر اس بندے کا یہ حق بنتا ہے کہ اس بندے کو شفا عطا کرے۔ ایک اور مقام پر فرمایا: تنگدستی اور بیماری کو پوشیدہ رکھنا مردانگی ہے۔

ڈاکٹر سے بیماری کا اظہار:

امام علی ؑ : جو کوئی اپنی بیماری کو ڈاکٹر سے چھپائے اس نے اپنے بدن سے خیانت کی ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا: جو کوئی چھپے ہوئے درد کو پنہاں رکھے اس کا ڈاکٹر اس کے علاج سے عاجز رہے گا۔

صبر و تحمل:

رسولؐ: بیمار کا کراہنا لکھا جاتا ہے، پس اگر تحمل کرتا ہے تو (یہ کراہنا) نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر بے تاب ہو تو بیتابی لکھا جاتا ہے اور اس کا کوئی اجر نہیں۔
رسولؐ: ہر بندے پر بیماری میں دو فرشتے مامور کیے جاتے ہیں جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو کہتے ہیں: اے پروردگار! فلاں بندہ بیمار پڑ گیا ہے البتہ وہ خود اس بات سے زیادہ واقف ہے۔ پس خدا فرماتا ہے: جاؤ دیکھو وہ کیا کہتا ہے؟ پھر اگر بندہ صبر و تحمل کرتا ہے اور اپنا اجر و ثواب خدا سے مانگتا ہے اور اس بیماری میں خداوند عالم سے خیر کی امید رکھتا ہے تو فرشتے یہ ساری باتیں خدا تک پہنچا دیتے ہیں۔
اس وقت خداوند عالم فرماتا ہے: اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ اب اس بندے کا حق مجھ پر ہے تو میں بھی اسے شفایاب کروں گا، پہلے سے بہتر خون اور پہلے سے بہتر گوشت کو نعم البدل قرار دوں گا اور اسے بخش دوں گا اور اگر اسے موت بھی دوں گا تو اسے جنت میں داخل کروں گا۔ لیکن اگر بندہ بے تابی اور بے صبری کرے تو خداوند عالم فرماتا ہے: اگر اس کی بیماری کی برطرف بھی کروں تو پھر بھی پہلے سے بدتر گوشت، پہلے سے بدتر خون کو اس کے لئے قرار دوں گا اور اسے اس کے گناہوں پر عذاب دوں گا اور اسے جہنم میں داخل کردوں گا۔
رسول ؐ: جو شخص ایک رات اور ایک دن بیمار رہے اور اپنے عیادت کرنے والوں سے شکوہ نہ کرے تو خداوند عالم اسے روزِ قیامت اپنے دوست ابراہیم خلیل الرحمان کے ساتھ محشور کرے گا او وہ بجلی کی سی چمک اور رفتار کے ساتھ پل صراط سے گزر جائے گا۔

شکر گزاری:

الکافی: عرزمی سے نقل ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو کوئی ایک رات بیمار رہے اور اس بیماری کو دل سے قبول کر لے اور خدا کی بارگاہ میں شکر گزار رہے تو وہ بیماری کی ایک رات اس کے لئے ساٹھ سال کی عبادت کی طرح ہے۔

صدقہ دینا:

رسولؐ: کوئی بیماری صدقہ سے زیادہ بہترین علاج نہیں رکھتی۔
رسولؐ: اپنے بیماروں کا صدقے کے ذریعے علاج کرو، کیونکہ وہ تمہاری بیماریوں اور تمہارے اوپر آئی ہوئی آفتوں کو تم سے دور کردیتا ہے۔ امام علی ؑ فرماتے ہیں: صدقہ ایک موثر دوا ہے۔امام صادق ؑ فرماتے ہیں: مستحب ہے کہ بیمار اپنے ہاتھ سے سائل کو صدقہ دے اور اس سے کہے کہ وہ اس کے لئے دعا کرے

دعا کرنا:

امام علی ؑ : ایک مرتبہ میں بیمار ہوگیا تو رسول ؐ میری عیادت کے لئے تشریف لائے اور فرمایا کہو:خداوند میں تجھ سے دعا گو ہوں کہ اپنی عافیت کو اپنے امتحان سے پہلے قرار دے، مجھے بردباری عطا فرما اور مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے جا۔ میں نے اس دعا کو پڑھا اس دعا کے بعد میں بستر بیماری سے اٹھ گیا گویا میں کسی قید سے آزاد ہوگیا۔
امام سجاد ؑ : اپنی دعا میں حالت بیماری میں فرماتے ہیں: خداوند! جسمانی صحت کہ جس سے مسلسل میں نے اپنے کاموں کو انجام دیا ہے تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور وہ بیماری جو تو نے مجھے دی ہے اس پر بھی تیرا شکر ادا کرتا ہوں۔ اب اے میرے خدا! مجھے نہیں معلوم کہ ان دونوں حالتوں میں سے کون سی حالت زیادہ مستحق شکر گزاری ہے اور ان دونوں اوقات میں سے کون سا وقت زیادہ لائق حمد و ثناء ہے۔
تیمار داری

تیمار داری کی جزا:

رسولؐ: جو کوئی کسی بیمار کی ایک شب و روز تیمار داری کرے تو خداوند عام اسے جناب ابراہیم خلیل علیہ السلام کے ساتھ محشور کرے گا اور وہ پل صراط پر سے بجلی کی تیزی اور چمک کی طرح گزر جائے گا۔امام علی ؑ : رسول ؐ نے فرمایا: اگر کوئی بیمار کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرے چاہے وہ اس کی ضرورت کو پورا کر دے یا نہ کرے وہ اپنے گناہوں کے بوجھ سے آزاد ہوجاتا ہے جس طرح وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔
اس وقت ایک مرد انصاری نے پوچھا: اے رسول ؐ! میرے ماں باپ آپ پر فدا! اگر بیمار اس کے گھر والوں میں سے ہو، کیا وہ اپنے گھر والوں کی آسائش اور آرام کی کوشش کرے تو کیا یہ چیز زیادہ ثواب نہیں رکھتی؟
فرمایا: کیوں نہیں۔

تیمار داری کے آداب:

پیامبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم: بیماروں پر کھانے پینے میں زبردستی نہ کرو کیونکہ خداوند عالم انہیں کھلا پلا دیتا ہے۔ سنن ابن ماجۃ میں ابن عباس سے نقل ہے کہ رسولؐ: ایک شخص کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے پوچھا: تمہارا کیا کھانے کو دل چاہ رہا ہے؟ اس نے کہا: گندم کی روٹی۔ رسولؐ نے فرمایا جس کے پاس گندم کی روٹی ہے وہ اپنے بھائی کے لئے بھیج دے۔ پھر فرمایا: اگر بیمار کا کچھ کھانے کا دل چاہتا ہے تو اس کے لئے فراہم کرو۔
الفقہ المنسوب للامام الرضا: روایت کرتا ہوں کہ تندرستی اور بیماری جسم میں ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتی ہیں پھر اگرتندرستی بیماری پر غالب آجائے تو بیمار بستر سے اٹھ جاتا ہے لیکن اگر بیماری تندرستی پر غالب آجائے تو بیمار کا دل بعض چیزیں کھانے کو چاہتا ہے اگر وہ کچھ کھانا چاہے تو اسے دو، شاید اسی چیز میں اس کے لئے شفا ہو۔
تشریح: اس بارے میں پہلی حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے بیمار کو بھوک نہ لگنا اس بات کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ خوراک بیمار کے لئے مفید نہیں ہے یا بیمار کے لئے نقصان دہ ہے اور سابقہ حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ ’’خداوند انہیں کھلا پلا دیتا ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بیمار کو بھوک نہیں لگتی۔ لیکن اس کے برعکس بھوک لگنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جسم کو کھانے کی ضرورت ہے اور کھانا اس کے لئے فائدہ مند ہے، اسی وجہ سے دوسری اور تیسری حدیث میں بیمار کو کھانا اور پانی دینے کی تاکید کی گئی ہے اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ بعض کھانے پینے کی چیزیں بیماروں کے لئے نقصان دہ ہیں اس لیے بیمار کے کھانے پینے کے بارے میں ڈاکٹر سے مشورہ لینا ضروری ہے۔
بیماروں کی عیادت

عیادت کی ترغیب:

رسولؐ: عیادت سنت ہے۔ رسولؐ: حضرت علی ؑ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے علی! ۔۔۔۔(حتیٰ کہ اگر چلنا پڑے) تو ایک فرسخ جاؤ اور بیمار کی عیادت کرو۔تاریخ دمشق: ابن عمر سے نقل ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی تو لوگوں کی طرف رخ کر کے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی بیمار ہوا ہے کہ میں اس کی عیادت کے لئے جاؤں؟
اگر کہتے تھے: کہ ’’نہیں‘‘ تو فرماتے کیا کوئی جنازہ ہو تو میں اسے کے تشیع جنازہ میں شرکت کروں؟
امام علی ؑ : آپ سے منسوب حکمت میں فرماتے ہیں: بیمار کی عیادت کرو اور صحت مند کے دیدار کے لئے جاؤ۔

عیادت کا ثواب:

رسولؐ: بیمار کی عیادت تشیع جنازہ سے زیادہ ثواب رکھتی ہے۔
رسولؐ: عیادت کرنے والا اپنے گھر سے بیمار کے گھر تک چل کر جاتا ہے ایسا ہے جیسے وہ جنت کے باغوں میں چلا ہو۔
رسولؐ: جو کوئی کسی بیمار کی عیادت کے لئے جاتا ہے (جب تک وہ راستے میں ہے) مسلسل خدا کی رحمت میں داخل ہوتا چلا جارہا ہے اور جب وہ بیمار کے پاس پہنچ کر (اس کے پاس) بیٹھتا ہے تو وہ پورے طور پر رحمت میں غوطہ ور ہوجاتا ہے۔
امام علی ؑ : چھ افراد کے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں: ۔۔۔۔جو شخص بیمار کی عیادت کے لئے جائے اور (راستے میں) مرجائے، اس کے لئے جنت ہے۔
امام باقر ؑ : خدا سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مناجات میں آیا ہے کہ: حضرت موسیٰ ؑ نے پوچھا: پروردگار! بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب کتنا ہے؟ خداوند عالم نے فرمایا: عیادت کرنے والے کے لئے ایک فرشتہ مقرر کرتا ہوں کہ وہ قیامت تک اس کی قبر میں اس کی عیادت کرے۔
امام صادق علیہ السلام: جو مومن کسی مومن کی اس کی بیماری میں صبح کے وقت عیادت کرے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ہمراہ ہوجاتے ہیں اور جب عیادت کرنے والا بیمار کے پاس بیٹھتا ہے تو خدا کی رحمت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور فرشتے شام تک اس کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرے اس کے لئے یہی مذکورہ ثواب ہے اور شام سے اگلی صبح تک فرشتے اس کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں۔

آداب عیادت:

الف: تین دن کے بعد عیادت

رسولؐ: تین دن بیماری کے بعد بیمار کی عیادت کرنی چاہیے۔

ب: اس کی عیادت جو تمہاری عیادت کے لئے نہ آیا

امام علی ؑ : جو تمہاری عیادت کو نہ آیا اس کی عیادت کے لئے جاؤ اور جس نے تمہیں کوئی تحفہ نہ دیا اسے تحفہ دو۔

ج: بیمار کو تحفہ دینا

الکافی: امام صادق علیہ السلام کے رشتہ داروں سے نقل ہے: امام صادق ؑ کا ایک رشتہ دار بیمار پڑگیا اور ہم جو اس کے چند رشتہ دار تھے اس کی عیادت کے لئے نکلے، راستے میں امام صادق ؑ سے ملاقات ہوگئی، امام نے پوچھا: کہاں جارہے ہو؟ ہم نے عرض کی: فلاں شخص کی عیادت کے لئے جارہے ہیں۔ امام ؑ نے فرمایا: رک جاؤ۔ ہم کھڑے ہوگئے تو فرمایا: کیا سیب، بہِ یاعود (خوشبو) میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟ ہم نے عرض کی: ان میں سے تو کوئی چیز بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ امام نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ بیمار کے پاس لے جایا جاتا ہے بیمار اس سے سکون محسوس کرتا ہے۔

د: بیمار کے ساتھ مہربانی کرنا

رسولؐ:جب تم میں سے کوئی بیمار کی عیادت کے لئے جائے تو اس سے ہاتھ ملائے، اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھے، اس کی احوال پرسی کرے، اس کی عمردراز ہونے کی دعا کرے اور بیمار سے خواہش کرے کہ وہ اس کے لئے دعا کرے چونکہ بیمار کی دعا، فرشتوں کی دعا کی مانند ہے۔
سنن الترمذی: ابو اما مۃ سے نقل کرتے ہیں کہ رسل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: عیادت کرنے والے کی عیادت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب عیادت کرنے والا بیمار کی پیشانی پر ہاتھ رکھے۔ یا فرمایا: اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے اور اس کی طبیعت پوچھے

ھ: بیمار کے لئے دعا کرنا

رسولؐ: جب کسی بیمار کے پاس جاؤ تو ا س کی طول عمر کے لئے دعا کرو، کیونکہ دعا (اس کی موت کو) ٹال تو نہیں سکتی، لیکن بیمار کو خوش کرنے کا باعث ہے۔

ز: بیمار کے سامنے کچھ ہ کھانے کی تاکید

امام علی ؑ : رسول اکرم ؐ نے عیادت کرنے والے کو بیمار کے سامنے کچھ کھانے سے منع فرمایا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ خدا عیادت کرنے والے کے ثواب کو ختم کردے۔

ح: بیمار کے پاس کم توقف کرنا

رسولؐ: سب سے زیادہ ثواب اس عیادت کا ہے جو تھوڑی دیر کی ہو۔ ایک اور مقام پر فرمایا: عیادت ایک بار اونٹنی کا دودھ دوہنے کے برابر مناسب ہے۔
امام علی ؑ : سب سے زیادہ اس عیادت کا اجر ہے کہ عیادت کرنے والا بیمار کے پاس کم بیٹھے مگر یہ کہ بیمار خود، عیادت کرنے والے کے بیٹھنے کو پسند کرتا ہو اور اس سے کہے کہ ابھی نہیں جاؤ۔

ط: ایک دن چھوڑ کر عیادت کرنا

رسولؐ: ایک دن چھوڑ کر اور دو دن چھوڑ کر عیادت کرو مگر یہ کہ بیمار کا حال بہت برا ہو۔
امام صادق ؑ : تین روز سے پہلے کوئی عیادت نہیں ہے اور جب عیادت ضروری ہو تو ایک دن چھوڑ کر عیادت کرے اور اگر بیماری طولانی ہو جائے تو بیمار اس کے گھر والوں پر چھوڑ دیا جائے گا۔
وہ بیمار جن کی عیادت کی تاکید کی گئی ہے
رسولؐ: مومن کے مومن پر سات حق واجب ہیں ۔۔۔ اور ایک یہ کہ بیمار ہونے پر اس کی عیادت کرے۔
رسولؐ: خداوند عالم قیامت کے روز اپنے ایک بندے کو ملامت کرے گا اور فرمائے گا کہ: اے میرے بندے! جب میں بیمار ہوا تو تم میری عیادت کو کیوں نہیں آئے؟ بندہ عرض کرے گا: سبحان اللہ! تو، تو بندوں کا پالنے والا ہے نہ تجھے کوئی درد ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی بیماری۔ خداوند فرمائے گا: تمہارا مومن بھائی بیمار ہوا اور تم اس کی عیادت کے لئے نہیں گئے۔ میری عزت و جلالت کی قسم! اگر تم اس کی عیادت کرنے جاتے تو مجھے وہاں پاتے، اس کے بعد میں خود تمہاری حاجتوں کو روا کرنے کی ذمہ داری لیتا، اور یہ سب کچھ میرے مومن کے احترام کی وجہ سے ہے اور میں بڑا بخشنے والا مہربان ہوں۔

بنی ہاشم:

رسول ؐ: بنی ہاشم (سیدوں) کی عیادت واجب ہے اور ان کی زیادہ مستحب ہے

خاندان:

امام علی ؑ : امام حسن ؑ کو نصیحت کرے ہوئے فرمایا: اپنے خاندان والوں کی عزت کرو کیونکہ تمہارے بال و پر ہیں جس سے تم پرواز کرتے ہو۔۔۔ اور جب ان میں سے کوئی بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کے لئے جاؤ۔

تنگدست و نادار:

رسولؐ: ابوذر سے فرمایا: تنگدست و نادار افراد کی صحبت میں بیٹھو اور جب بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرو۔
وہ بیمار جن کی ہر گز عیادت نہیں کرنا چاہیے
رسولؐ: تین گروہ کی عیادت نہیں کرو: جس کے دانت میں درد ہے، جس کی آنکھ میں درد ہے اور وہ جس کے جسم پر پھوڑا نکلا ہو۔
رسولؐ: شراب پینے والے بیمار پڑے تو اس کی عیادت نہیں کرنا۔
جو کام بیمار کے سامنے نہیں کرنے چاہیں
رسولؐ: جو کوئی تم میں سے اپنے بھائی کو کسی آزمائش میں مبتلا دیکھے تو (اپنی تندرستی پر) خدا کا شکر کرے، البتہ اس شکر کو بیمار کے سامنے اتنی زور سے نہ کرے کہ وہ سنے۔

رسولؐ: کوڑھ کے بیماروں کو نگاہ بھر کر نہ دیکھو۔

رسولؐ: آزمائش میں مبتلا (بیماروں) کو مسلسل نہ دیکھو کیونکہ یہ کام ان کی رنجیدگی کا باعث بنتا ہے۔ 

فصل پہلی 

دل اوررگیں

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و االہٖ وسلم:انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ایسا لوتھڑاہے جو اگر صحت مند رہے تو پورا جسم صحت مند رہے گا اور اگر بیمار ہوجائے تو سارا جسم بیمار ہو جائے گا اور وہ دل ہے۔
امام رضا علیہ السلام:خدا وند عالم نے انسان کے ہر مرض کے لئے دوا قرار دی ہے کہ اس کے ذریعے علاج کیا جائے اور ہر طرح کے درد کا بھی علاج ہے کیونکہ یہ جسم ایک مملکت کی طرح بنائے گئے ہیں۔اس سرزمین کا بادشاہ دل ہے اور سارے جسم اور دماغ کی رگیں ،اس مملکت کے کام کرنے واکے ہیں اس بادشاہ کاگھر انسان کا دل ہے اس بادشاہ ( کی سرزمین) کا ملک،انسان کا جسم ہے،دونوں ہاتھ،پاؤں،آنکھیں،ہونٹ،زبان اور کان اس بادشاہ کے یاور و مدد گار ہیں۔

امام صادق علیہ السلام:ہندوستانی طبیب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: دل صنوبر کے بیج کی طرح ہے کیونکہ اُلٹا ہوتا ہے تاکہ پھیپھڑوں کے اندر چلا جائے اور اس کی خنکی سے خود کو خنک کرلے،تاکہ ایسا نہ ہو کہ دماغ،دل کی گرمی سے جل جائے۔
امام صادق علیہ السلام:مفضل ابن عمر سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
اے مفضل! اب میں دل کی تعریف کرتا ہوں،جان لو کہ اس میں بہت سے سوراخ ہیں جن کا رخ پھیپھڑوں کے سوراکوں کی طرف موڑ دیا گیا ہیاور یہی سوراخ ہیں جو دل کو خنک کرتے ہیں اس طرح کہ اگر یہ دونوں سوراخ آمنے سامنے نہ ہوتے تو ٹھنڈک دل تک نہ پہنچ پاتی اور انسان مر جاتا۔اب ایک عقل مند اور متفکر شخس یہ کہنا صیحح سمجھے گا کہ یہ متناسب چیزیں بے مقصد پیدا ہوگئی ہین؟اور کیا اس کا ضمیر اسے اس بات پر ملامت نہیں کرے گا؟!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:ہر انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ رگیں ہیں اور اس تعداد میں سے ایک سو اسی رگیں متحرک اور ایک سو اسی ساکن ہیں،اگر متحرک رگیں ساکن ہوئیں تو انسان مرجاتا اور اگر ساکن رگیں متحرک ہوتیں تب بھی انسان کی موت واقع ہوجاتی!
امام صادق علیہ السلام:رسول اکرم صلی علیہ و آلہ ٖ وسلم ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ انسان کی رگوں کی تعداد کے برابر خدا کا شکر کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے:’خدا وند عالم کا فراوانی سے ہر حال میں شکر‘
امام صادق علیہ السلام:رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کے بدن میں تین سو ساٹھ رگیں ہیں ایک سو اسی متحرک اور ایک سو اسی ساکن،اگر متحرک رگیں ساکن ہوتیں تو انسان زندہ نہیں رہ پاتا اور اگر ساکن رگیں متحرک ہوجاتیں تو انسان سو نہیں پاتا،رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ فرماتے:’’عالمین کے رب کا فراوانی اور ہر حال میں شکر!‘‘شام کو بھی اسی طرح فرماتے تھے۔

جو چیزیں دل کی صحت اور قوت کے لئے مفید ہیں


الف: سیب

امام صادق علیہ السلام:اگر لوگوں کو سیب کی خاصیت کا علم ہوتا تو اپنے بیماروں کا علاج سیب کے علاوہ کسی اور چیز سے نہ کرتے۔جان لو! کہ سیب مخصوصاً دل کے لئے مفید ترین چیز ہے اور دل کو صاف کرنے کا باعث ہے۔

ب۔سرکہ

امام علی علیہ السلام:سرکہ اچھی غذا ہے،زرداب کو ختم کرتا ہے اور صفرا کو دبا دیتا ہے اور دل کو زندہ کرتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام: سرکہ دل کو روشن کرتا ہے

ج۔انار

امام صادق علیہ السلام: جوکوئی ناشتہ میں انار کھائے(وہ انار) اس کے دل کو چالیس دن تک زندہ کردے گا۔

 

د۔ثابت مسور کی دال(کالی مسور،ملکہ مسور)

امام علی علیہ السلام: ثابت مسور کی دال،دل کو نرم کرتی ہے اور آنسو ؤں میں اضافہ کرتی ہے
الکافی:فرات ابن احنف سے نقل ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر نے خدا وند عالم سے اپنے دل کی سختی اور آنسوؤں کی کمی کا شکوہ کیا تو خدا وند عالم نے ان پر وحی نازل کی کہ:’’ثابت مسور کی دال کھاؤ‘‘انہوں نے مسور کی دال کھائی تو اُن کا دل نرم ہوگیا اور اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

ھ۔بہِ(ایک پھل جو شکل میں کچھ سیب سے ملتا جُلتا ہے)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہِ کھاؤ،کیونکہ وہ دل کو جلا بخشتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:بہِ کھایا کروِ کیونکہ دل کو جلا بخشتا ہے اور سینے کی تنگی اور تارکی کو دور کرتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و االہٖ وسلم:بہِ کھایا کرو کیونکہ وہ دل کو محکم اور شاداب کرتا ہے،دل کو شجاعت بخشتا ہے اور اولاد کو اچھا بناتا ہے۔
امام کاظم علیہ السلام:رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے جعفر ابن ابی طالب سے فرمایا؛اے جعفر بہِ کھاؤ کیونکہ وہ دل کو قوی کرتا ہے اور بزدل کو شجاعت عطا کرتا ہے۔
امام علی علیہ اسلام:بہِ دل کی قوت اور دل کی حیات ہے اور بزدل کو شجاع بناتا ہے۔
امام علی علیہ السلام: بہِ کھانا کمزور دل کی قوت کا باعث ہے معدے کو صاف کرتا ہے،دل کو شاداب کرتا ہیاور بزدل کو بہادر بناتا ہے۔

و۔ناشپاتی

امام صادق علیہ السلام: ناشپاتی کھاؤ کیونکہ خدا وند عالم کے اِذن سے دل کو جلا بخشتی ہے اور اندرونی تکالیف کی تسکین کا باعث ہے۔

 

 

ز۔شہد

امام علی علیہ السلام: شہد ہر بیماری کے لئے شفاء ہے اور اس سے کوئی بیماری نہیں ہوتی،شہد بلغم کو کم کرتا ہے اور دل کو جلا بخشتا ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم؛شہد کتنی بہترین غذا ہے! دل کی حفاظت کرتا ہے اور سینے کی ٹھنڈک کو ختم کرتا ہے۔

ح۔تلبینہ

امام صادق علیہ السلام:غمزدہ دل کو مسرور کرتا ہے،جیسیانگلیاں ، پیشانی کے پسینے کو صاف کرتی ہیں۔

ط۔خوشبو

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم : خوشبو دل کو مستحکم کرتی ہے اور ہم بستری کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔
وہ چیزیں جو رگوں کی صحت کے لئے مفید ہیں

ف۔بیگن

امام جعفر صادق علیہ السلام:کھجور کی فصل پکنے پر توڑنے کے موسم میں بہت زیادہ بیگن کھاؤ کیوں کہ وہ ہر درد کے لئے شفا ہے،چہرے کی شادابی میں اضافہ کرتا ہے،رگوں کو نرم کرتا ہے اور کمر کے پانی(جنسی قوت) میں اضافہ کرتا ہے۔
ب۔حوک(ایک معطر سبزی پہاڑ پر اپگنے والی سبزی ریھان اور ترہ زنجان)
امام صادق علیہ السلام:حَوک پیغمبروں کی سبزی ہے،اس میں آٹھ خواص ہیں ہاضم ہے،رگوں مین خون کے جریان کو بہتر بناتی ہے،رگوں کو کھولتی ہے،اچھی ڈکاریں آتی ہیں،دھن کو معطر کرتی ہے،کھانے کے مزے کو دوبالا کردیتی ہے،درد اور بیماری کو بدن سے نکال دیتی ہے کوڑھ کے مرض سے محفوظ رکھتی ہے۔(اور۹جب انسان کے جسم میں داخل ہوتی ہے تو تمام امراض کو ختم کردیتی ہے۔

ج۔انجیر

امام علی علیہ السلام:انجیر کھانے سے رگیں کھلتی ہیں اور نرم پڑتی ہیں۔

 

 

د۔گنّا

امام کاظم علیہ السلام؛ گنّا رگوں کو کھولتا ہے اور جسم کے نظام کو بہتر بناتا ہے اور گنّے سے کوئی بیماری نہیں ہوتی اور اس میں کوئی برائی نہیں۔

 

ھ۔روزہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و االہٖ وسلم:روزہ رکھا کرومبلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے اور جنسی خواہشات کو دبادیتا ہے۔

و۔رات کا کھانا

امام صادق علیہ السلام: رات کا کھانا ہر گز ترک نہ کرو اگرچہ روٹی اور نمک کے تین لقمے ہی کیوں نہ ہوں! جو کوئی ایک رات کا کھانا چھوڑتا ہے تو ایک رگ جسم میں مرجاتی ہے اور پھر وہ رگ ہرگز دوبارہ زندہ نہیں ہوتی۔
امام رضا علیہ السلام: جسم میں ایک رگ ایسی ہے جیسے ’’عشا‘‘(یعنی رات کا کھانا) کہتے ہیں اگر کوئی رات کا کھانا نہ کھائے تو وہ رگ صبح تک اس پر لعنت بھیجتی ہے اور کہتی ہے’’ خدا تمہیں بھوکا رکھے جیسے تم نے مجھے بھوکا رکھا اور تمہیں پیسا رکھے جیسے تم نے مجھے پیاسا رکھا تو ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی رات کا کھانا چھوڑ دے، اگرچہ روٹی یا ایک لقمہ یا ایک گھونٹ پانی۔ 

فصل دوسری

دماغ اور مغز کا نظام


کچھ دماغ اور مغز کی حکمت کے بارے میں

امام صادق علیہ السلام:جب طبیب امام ؑ کے اس سوال کے جواب سے قاصر رہا جو امام ؑ نے اس پوچھا تھا کہ :انسان کی کھوپڑی کیوں چند ہڈیوں اور تہوں سے مل کر بنی ہے؟ تب امام ؑ نے خود ہی جواب فرمایا کہ: ہر وہ چیز جو اندر سے خالی ہو اگر بغیر جوڑ کے بنائی جائے اس کے ٹوٹنے کا خطرہ زیادہ ہے لیکن اگر چند ٹکڑوں کو جوڑ کر بنائی جائے تو آسانی سے نہیں ٹوٹ سکتی۔
حضرت امام صادق علیہ السلام:مفضل ابن عمر سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:اگر کھوپڑی کو کھولا جاتا تو تم دماغ کو دیکھ سکتے تھے اور یہ دیکھتے کہ دماغ بہت سے پردوں8 (تہوں) کے درمیان ہے جو اسے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے اسے بچایا جاسکے اور اسے سیدھا رکھے تاکہ دماغ میں لرزہ پیدا نہ ہو اور تم یہ دیکھتے کہ کھوپڑی،دماغ کے اوپر اس طرح اسے محفوظ رکھے ہوئے ہے جیسے فولاد کی ٹوپی(جو جنگوں میں فوجی اپنے سر پر پہنتے ہیں) تاکہ دماغ کو ہر ممکنہ سخت چوٹ سے بھی محفوظ رکھے پھر اس کھوپڑی پر بالو ں کا تاج سجادیا اور یہ بال اس دماغ کے لئے لباس کی مانند ہیں جو اسے گرمی اور سردی کی شدت سے محفوظ رکھتے ہیں تو پھر کس نے دماغ کو اس قلعے میں محفوظ کردیا! کیا اسی نے اس دماغ کو محفو ظ نہیں کیا جس نے اسے خلق کیا اور اس دماغ کو محسوسات کا سرچشمہ بنایا اور انسانی جسم میں اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کے لئے اس قدر حفاظتی اقدامات انجام دئیے۔
اے مفضل ! کس نے دل کو انسان کے سینے میں جگہ دی اور پسلیوں کو زرہ کی مانند اس کے ارد گرد تان دیا اور اس دل کو پسلیوں کی ہڈیوں،گوشت اور اس پر چربی کے ذریعے اسے محفوظ کردیا تاکہ کوئی زخم یا چوٹ اس تک رسائی حاصل نہ کرسکے؟
اے مفضل! ذرا غور سے سوچو! کہ دماغ جو ایک مائع ہے کیسے ہڈیوں کے حصار کے اندر رکھا گیا کیا یہ سب کچھ دماغ کی حفاظت کی خاطر نہیں ہے تاکہ اسے کوئی ضرر نہ پہنچے؟

وہ چیزیں جو عقل کو استحکام عطا کرتی ہیں


الف: باقلا(ایک طرح کی پھلی)

امام صادق علیہ السلام:باقلا کھانے سے پاؤں کی ہڈیوں میں استحکام آتا ہے اور ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور تازہ خون بنتا ہے۔

ب: تیل کی مالش

حضرت امام علی علیہ السلام:تیل جلد کو نرم کرتا ہے اور ذہنی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے جسم میں موجود پانی کی رگوں کو کھولتا ہے،جلد کے میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور جلد کی رنگت کو گورا کرتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام:بنفشہ کا تیل، ذہن کو قوت عطا کرتا ہے۔

ج۔ رگ کھلوانا

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:رگ کھلوانے سے عقل میں اضافہ ہوتا ہے اور حافظہ کی قوت بڑھتی ہے۔
حضرت امام علی علیہ السلام: رگ کھلوانے سے بدن تندرست رہتا ہے اور عقل کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔

د۔ سرکہ

حضرت امام صادق علیہ السلام: ہم کھانے کا آغاز سرکے سے کرتے ہیں جیسے تم نمک سے کرتے ہو کیونکہ سرکہ عقل کو محکم کرتا ہے۔

ھ۔شراب کا سرکہ

حضرت امام صادق علیہ السلام: شراب کا سرکہ مسوڑھوں کو قوت عطا کرتا ہے پیٹ کے کیڑوں کو مار دیتا ہے اور دماغ کو قوت بخشتا ہے۔

و۔سُداب

حضرت امام کاظم ؑ :سُداب عقل میں اضافہ کرتا ہے۔
الکافی:محمد ابن عمر ابن ابراہیم سے نقل ہے کہ امام باقر علیہ السلام یا امام کاظم علیہ السلام کے سامنے سداب کا نام لیا گیا تو آپؑ نے فرمایا: جان لو کہ اس میں کچھ فوائد بھی ہیں،سداب عقل میں اضافہ کا باعث ہے ذہنی صلاحیتون کو بہت بڑھاتا ہے،اگرچہ کمر کے پانی(منی) کو بدبو دار کردیتا ہے۔

ز۔چقندر

امام رضا علیہ السلام: چقندر کے فوائد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : عقل کو محکم کرتا ہے اور خون کو صاف کرتا ہے۔

ح۔مسواک کرنا

امام باقر علیہ السلام:مسواک کرنے سے بلغم ختم ہوتا ہے اور عقل میں اضافہ ہوتا ہے۔
ط۔ خُرفہ (ایک سبزی ہے جو بیل کی صورت میں زمین پر بچھی ہوتی ہے جس کی شاخیں سرخ رنگ کی اور پتے سفید ہوتے ہیں اس کی بیجیں بہت چھوٹی اور کالے رنگ کی ہوتی ہیں بعض جگہ کچّا کھایا جاتا ہے)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:خرفہ کھایا کرو کیونکہ عقل اور ہوشیاری میں اضافہ کرتی ہے اور اگر ایک ہی چیز عقل میں اضافہ کا باعث ہوتی تو وہ خُرفہ ہوتی۔

ی۔کدو

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم: کدو کھایا کرو کیوں کہ کدو عقل میں اضافہ کرتا ہے اور دماغ کو بڑا کرتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم؛ کدو کھایا کرو کیونکہ وہ عقل کی نشو نما کرتا ہے اور دماغی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔
وہ چیز جو حافظہ کی قو ت کو بڑھاتی ہے

الف۔میویز(منقا)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:جو کوئی مسلسل ناشتے میں منقا کھائے تو اس کی ذہانت اور حافظے میں قوت کا سبب ہے اور اس کے بلغم میں کمی واقع ہوگی۔

ب۔ شہد

رسول اکرم صلی علیہ و آلہٖ وسلم؛جو کوئی حافظہ تیز کرنا چاہتا ہے تو شہد کھائے
الفقہ المنسوب امام رضا علیہ السلام:(امام کاظم ؑ ) فرماتے ہیں کہ : شہد میں ہر بیماری کی شفا ہے۔جو کوئی ناشتے میں ایک چمچہ شہد کھائے یہ شہد اس کے بلغم کو ختم کردیتا ہے صفرا کو دبا دیتا ہے اور سودا سے بچاتا ہے اور ذہن کو جلا بخشتا ہے اور اگر شہد کندر کے ساتھ کھایا جائے تو حافظہ کے لئے مفید ہے۔

ج۔کرفس(ایک قسم کی سبزی)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:کرفس بندشوں کو کھولتا ہے،دل کو تر و تازہ کرتا ہے،حافظے کے لئے مفید ہے اور دیوانگی،کو ڑھ،برص اور ڈر کو دور کرتا ہے۔
الدروس:کرفس حافظے کو تیز کرتا ہے،شادابی کا باعث ہے اور دیوانگی،جذام اور برص سے بچاتا ہے۔

د۔رگ کھلوانا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:رگ کھلوانے سے عقل میں اضافہ ہوتا ہے اور حافظے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔
حافظے کے لئے مفید عوامل
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم؛تین چیزیں حافظے کو بڑھانے کا سبب ہیں اور بلغم کو ختم کردیتی ہیں:قرآن کی تلاوت کرنا،شہد اور کُندر۔
امام علی علیہ السلام:تین چیزیں بلغم کو ختم کردیتی ہیں اور حا فظے کو بڑھاتی ہیں:مسواک کرنا،روزہ رکھنا او ر قرأت قرآن۔
جو چیزیں بھول چوک کا باعث بنتی ہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم: امام علی علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اے علی ؑ سات چیزیں بھول چوک اور نسیان کا سبب بنتی ہیں:کھٹا سیب کھانا،ہرا دھنیا کھانا،پنیر اور چوہے کا بچا ہوا کھانا،قبر کے کتبے پڑھنا،دو خواتین کے درمیان چلنا، جوؤں کو(مارے بغیر) پھیکنا، گُدی کے گڑھے میں رگ کھلوانا اور ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا۔
رسول اکرم صلی علیہ و آلہٖ وسلم؛دس چیزیں نسیان آور ہیں:پنیر کھانا،چوہے کا بچا ہوا کھانا،کھٹا سیب کھانا اور ہرا دھنیا کھانا،سر کے پچھلے حصّے میں رگ کھلوانا،دو خواتین کے بیچ میں چلنا،پھانسی پر چڑھے شخص کو دیکھنا،کچی نیند لینا اور قبر کے کتبے پڑھنا۔
امام باقر علیہ السلام:ناخن کاٹا کرو کیونکہ ناخن شیطان کی پناہ گاہ ہے اور نسیان کا سبب بنتا ہے۔
امام رضا علیہ السلام؛ بہت زیادہ وحشی جانوروں اور گائے کا گوشت د ماغ کو خشک کرتا ہے،ذہن و عقل کی کمی اور بہت زیادہ نسیان کا سبب ہے
مکارم الاخلاق:حدیث میں ہے کہ سیب نسیان کا سبب بنتا ہے کیونکہ معدے میں چپکن پیدا کرتا ہے۔
امام کاظم علیہ السلام؛ سیب اور ہرا دھنیا نسیان کا سبب بنتا ہے۔
وہ چیزیں جو نسیان سے بچاتی ہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:پانچ چیزیں نسیان سے بچاتی ہیں اور حا فظے میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں اور بلغم کو ختم کرتی ہیں:مسواک کرنا ،روزہ رکھنا،قرآن کی تلاوت کرنا اور شہد اور کُندُر (کھانا)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و االہٖ وسلم: کُندُر کھایا کرو،کیونکہ..........عقل میں اضافہ کرتا ہے،ذہن کو تیز کرتا ہے،آنکھوں کو جلا بخشتا ہے اور نسیان کو ختم کرتا ہے
کنزالعمال:عبداللہ ابن جعفر سے نقل ہے کہ ایک شخص حضرت علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام کے پاس آیا اور اپنے نسیان کی شکایت کی اور نسیان سے رنجیدگی کا اظہار کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا؛کُندُر کھایا کرو،کیونکہ کُندُر دل کو شجاعت عطا کرتا ہے اور نسیان کو ختم کرتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام: تین چیزیں نسیان کو ختم کرتی ہیں اور حافظے کی قوت میں اضافہ کرتی ہیں قرأت قرآن،مسواک کرنا اور روزہ رکھنا۔
امام رضا علیہ السلام: جو کوئی چاہتا ہے کہ اس کے نسیان میں کمی آئے اور حافظے کی قوت میں اضافہ ہو تو ہر روز تین ٹکڑے بڑی الائچی شہد میں ملاکر کھائے اور ہر روز اپنے کھانے میں رائی سے بنی ہوئی خوراک شامل کرے۔جو کوئی چاہتا ہے کہ اس کی عقل؛ میں اضافہ ہو ہر روز اپنے گھر سے نکلنے سے پہلے تین ہلیلہ سیاہ،طبرزدکی کی شکر کے ساتھ چبائے۔

جو چیزیں(اعصاب)دماغ کو مضبوط کرتی ہیں

الف۔منقا کھانا

الاختصاص:ابو ہندداری سے نقل ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو ایک ڈھکی ہوئی سینی تحفے کے طور پر پیش کی گئی جب اس کا کپڑا ہٹایا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و ٓ آلہٖ وسلم نے فرمایا:خدا کے نام سے کھانا شروع کرو،منقا کتنی اچھی غذا ہے کہ اعصاب کو مضبوط کرتی ہے!........
رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم:منقا کھایا کرو کیونکہ منقا صفرا کو ختم کرتی ہے،بلغم کو ختم کرتی ہے ذہن کو محکم کرتی ہے رنجیدگی اور تھکن کو ختم کرتی ہے۔
خوش اخلاق بناتی ہے،دل کو پاکیزہ کرتی ہے اور غم و اندوہ کو ختم کرتی ہے۔

ب۔بھیڑ کا گوشت دودھ کے ساتھ استعمال کرنا(کھانا)

امام صادق علیہ السلام : جو کوئی اپنے دل یا جسم میں کمزور ی محسوس کرے وہ بھیڑ کا گوشت اور دودھ ایک ساتھ استعمال کرے کیونکہ یہ غذا ہر درد اور بیماری کو اس کے جسم سے باہر نکال دی گی اور جسم کو قو ت عطا رے گی اور مسوھوڑ وں کو بھی مستحکم کرے گی۔

جو چیزیں چربی کو نرم کرتی ہیں

امام رضا علیہ السلام؛نہانے کا فائدہ یہ ہے کہ معتدل کردیتا ہے میل کچیل کو صاف کردیتا ہے چربی اور رگوں کو نرم کرتا ہے(بلڈ پریشر ختم کرتا ہے)بڑے اعضاء کو محکم کرتا ہے اور زائد اجزاء انفیکشن کو بھی ختم کرتا ہے۔
جو چیزیں سردرد میں مفید ہیں الف۔ سر کو خطمی(پودے کا انم) سے دھوناامام صادق علیہ السلام: خطمی سے سر دھونا سر درد سے بچاتا ہے
امام کاظم علیہ السلام:جمعہ کو خطمی سے سر دھونا سنت ہے،روزی میں اضافہ کرتا ہے فقر و تنگدستی سے بچاتا ہے،بال اور کھال کو بہتر کرتا ہے اور سر درد سے بچنے کا سبب ہے۔

ب۔نیم گرم پانی پینا

امام صادق علیہ السلام:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم: افطار کا آغاز حلو ے سے کرتے تھے اور حلوے سے روزہ کھولتے تھے،اگر حلوہ نہیں ہوتا تھا تو کسی دوسری میٹھی چیز یا کھجور سے اگر وہ بھی نہیں ملتا تھا تو نیم گرم پانی سے افطار کرتے تھے پھر فرماتے تھے کہ:نیم گرم پانی معدے اور جگر کو صاف کرتا ہے.....اور سر کے درد کو ختم کرتا ہے۔

ج۔ ٹھنڈے پانی سے پاؤں دھونا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم:نہا کر باہر آنے کے بعد پاؤں کو ٹھنڈے پانی سے دھونا سر درد سے بچاتا ہے۔

د۔بنفشہ کا تیل لگانا

امام صادق علیہ السلام: بنفشہ کا تیل کتنا اچھا ہے! سر اور آنکھوں کے درد کو ختم کرتا ہے اس تیل کی مالش کیا کرو۔

ھ۔مہندی سے خضاب کرنا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:مہندی،اسلامی خضاب ہے،مومن کے عمل کے ثواب کو بڑھاتا ہے،سر درد کو ختم کرتا ہے،آنکھوں کی بینائی کو تیز کرتا ہے،ہم بستری کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے،اور سب سے اہم بات یہ کہ دنیا و آخرت کے خوشبو دار پودوں میں سے ہے۔

و۔ناک میں پانی ڈالنا

امام علی علیہ السلام؛منہ اور ناک کو دھونا،سنت اور منہ اور ناک کی پاکیزگی کا باعث ہے،ناک میں پانی ڈالنا،سر کے صیحح و سالم رہنے اور جسم کی پاکیزگی کا سبب بنتا ہے اورہر طرح کے سر درد سے نجات دیتا ہے۔امام صادق علیہ السلام:رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے سر میں جب درد ہوتا تھا تو تِل کے تیل کو ناک میں ڈالتے تھے۔
طب الائمۃ: علی ابن یقطین سے نقل ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو تحریر کیا کہ میں اپنے سر میں شدید درد محسوس کرتا ہوں کہ حتیٰ جب ہوا چلتی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ میں درد کی شدت سے بے ہوش ہوجاؤں گا۔
امام علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں میرے لئے لکھا؛عنبر اور سوسن(ایک پھول) سے انفیہ(ناک میں ڈالنا) کیا کرو البتہ کھانا کھانے کے بعد تاکہ خدا کے اذن سے شفایاب ہوجاؤ۔

ز۔ رگ کھلوانا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم: رات کو رگ کھلوانا،دیوانگی،کوڑھ،رات کی نابینائی برص اور سر درد کا علاج ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے خدمتگار تھے سے نقل ہے کہ:جب ہم میں سے کوئی سردرد سے رنجیدگی کا اظہار کرتا تھا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم فرماتے تھے کہ:جاؤ رگ کھلواؤ‘‘اور جب کوئی پاؤں کے درد کی شکایت کرتا تو فرماتے:’’جاؤ پاؤں پر مہندی لگاؤ‘‘

ح۔کاسنی

الکافی:محمد ابن اسماعیل سے نقل ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ انہوں نے فرمایا:’’کاسنی ہزار درد کی شفا ہے انسان کے جسم میں کوئی بھی بیماری ایسی نہیں جو کاسنی سے پوری طرح ختم نہ ہوجاتی ہے۔‘‘
ایک روز امام کے ایک غلام کے سر میں درد ہوگیا اور بخار چڑھ گیا امام ؑ نے اس کے لئے کاسنی منگوائی اور فرمایا کہ اسے پیس دو،پھر اس پسے ہوئے کاسنی کو ایک کاغذ پر رکھا اور بنفشہ کا تیل اس پر ڈالا اور اس مخلوط کو اپنے بیمار غلام کی پیشانی پر رکھا۔پھر فرمایا:’’جان لو کہ یہ نسخہ بخار کو ختم کرتا ہے اور سر درد کے لئے مفید ہے اور سر درد کو بھی ختم کردیتا ہے۔‘‘


 ط۔تازہ مچھلی

امام رضا علیہ السلام:جو کوئی درد شقیقہ(آدھے سر کا درد) اور پیٹ کے درد سے ڈرتا ہے،تو اسے چاہیے کہ سردی اور گرمی میں تازہ مچھلی کھانا ہر گز نہ چھوڑے۔
جو چیزیں پیدائشی دیوانگی کا باعث ہیں
امام رضا علیہ السلام:ایک نزدیکی کے بعد دوسری نزدیکی جبکہ درمیان میں غسل نہ ہو بچے کی دیوانگی کا سبب ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:مرد کے لئے مکروہ ہے کہ احتلام کے بعد عورت سے نزدیکی کرے مگر یہ کہ احتلام کے بعد غسل کرلے اور اگر غسل کے بغیر نزدیکی کرے تو بچہ پیدائشی دیوانہ ہوگا پھر اپنے علاوہ کسی کو ملامت نہ کرے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:حضرت علی علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے علی علیہ السلام:مہینے کے آغاز میں،درمیان میں اور آخر میں اپنی بیوی سے نزدیکی نہ کرنا کیونکہ اس صورت میں دیوانگی،کوڑھ اور پاگل پن تمہاری بیوی اور بچے میں سرائیت کر جائے گی۔
جو چیزیں دیوانگی سے بچاتی ہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:حضرت علی علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اے علی علیہ السلام!کھانے کا آغاز اور اختتام نمک سے کرو، کیونکہ جو کوئی اپنے کھانے کا آغاز اور اختتام نمک سے کرتا ہے وہ بہّتر طرح کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے جن میں دیوانگی، کوڑھ اور برص وغیرہ شامل ہیں۔

نرگس کے پھول سونگھنا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلٖ وسلم: نرگس کے پھول کو سونگھا کرو،اگرچہ دن میں ایک بار ہی سہی،حتیٰ ہفتے میں ایک بار،حتیٰ مہینے میں ایک بار،حتیٰ سال میں ایک بار،حتیٰ اپنی ساری عمر میں ایک بار،کیونکہ دل میں دیوانگی،کوڑھ اور برص کا ایک بیج ہوتا ہے اور وہ نرگس کے پھول کو سونگھنے سے ختم ہوجاتا ہے۔

ج۔ہر جمعہ کو مونچھیں اور ناخن تراشنا

ہر جمعہ کو تھوڑی سی مونچھیں اور ناخن چھوٹے کرلیا کرو،اگرچہ بہت کم بڑھے ہوں پھر بھی انہیں ہلکا سا تراش لیا کرو کیونکہ اس طرح دیوانگی،کوڑھ اور برص سے محفوظ رہوگے۔

د۔بچوں کے منہ سے رال ٹپکنا

امام صادق علیہ السلام:خدا وند عالم نے انسان کو جو نعمتیں دی ہیں ان کے بارے میں فرمایا: رال جو بچوّں کے منہ سے بہتی ہے وہ ان رطوبتوں کے جسم سے خارج ہونے کا سبب بنتی ہے جو اگر جسم میں رہ جاتیں تو شدید نقصان دہ ہوتیں،جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ بعض بچوں کی بہت زیادہ رال ٹپکتی ہے اور اسی وجہ سے وہ کند ذہنی،دیوانگی اور حماقت اور دوسری بیماریوں سے جیسے جسم میں سستی اور لقوہ اور اسی طرح کی مختلف بیماریوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں اس طرح خدا وند عالم نے بچپن ہی میں انسان کے صحت اور تندرستی کے ساتھ بڑے ہونے کا انتظام کردیا اور انسان پر اس چیز سے احسا ن کیا جس کے بارے میں وہ نادان تھا اور جس چیز کو انسان پہچاننے اور سمجھنے سے قاصر رہا خدا وند عالم نے اسے وہ نعمت عطا کردی،اگر انسان خدا وند عالم کی نعمتوں کو پہچان لیتا( کہ کس قدر وہ اپنے بندے مہر بان ہے اور اس کی ہر ضرورت چاہے وہ اُسے محسوس کرے یا نہ کرے اسے پورا کردیا) تو یہ معرفت اسے خدا کی نافرمانی سے بچا لیتی تو پھر واقعی پاک ہے وہ ذات کہ جس نے بہترین نعمتیں عنایت کیں اور لائق اور نا لائق سب پر کرم کیا اور بے ایمان افراد اسے جیسا سمجھتے ہیں وہ اس سے بہت برتر اور اعلیٰ ہے۔
جو چیزیں جسم میں سستی پیدا کرتی ہیں

الف۔ناشتے میں گرما کھانا

امام رضا علیہ السلام: ناشتے میں گرما کھاناِ(خدا کی پناہ!) جسم میں سستی پیدا کراتا ہے۔
ب۔مچھلی کھانے کے بعد ٹھنڈے سے پانی نہانا
امام رضا علیہ السلام:مچھلی کھانے کے بعد ٹھنڈے پانی سے غسل کرنا جسم میں سستی کا باعث ہے۔
جو چیزیں جسم کو سستی سے بچاتی ہیں

الف۔مچھلی کھانے کے بعد کھجور کھانا

الکافی:سعید بن جناح سے نقل ہے کہ امام کے ایک رشتہ دار کہتے ہیں کہ امام نے چند کھجور طلب کئے اور نوش فرمائے پھر فرمایا: ’’اس وقت میرا کھجور کھانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن کیونکہ مچھلی کھائی تھی اس لئے کھجور کھالئے۔‘‘
پھر فرمایا:جو کوئی مچھلی کھائے اور اس کے بعد چند کھجوریں یا تھوڑا شہد نہ کھائے اور سو جائے تو صبح تک اس کے جسم پر سستی چھائی رہے گی۔

ب۔کھانسی

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم: چار چیزوں کو برا نہ سمجھو...... اور کھانسی کو،کیونکہ وہ فالج کے جراثیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔

ج۔دعا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم:اَنس سے مخاطب ہو کر فرمایا:کیا تمہیں ایسی دعا نہ سکھاؤں جو اگر تم ہر روز صبح کی نماز کے بعد تین دفعہ پڑھو تو خدا وند عالم کوڑھ،برص،جسم کی سستی اور نابینائی کو تم سے دور کردے؟
کہو: اے خدا اپنی بارگاہ سے مجھے راہنمائی عطا کر،اپنے فضل و کرم کی مجھ پر بارش برسا،اپنی رحمت سے مجھے نعمت سے سرشار کردے اور اپنی برکتیں مجھ پر نازل فرما۔‘‘

جو چیزیں لقوہ سے محفوظ رکھتی ہیں

مکارم الاخلاق: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بارے میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ ٓاپؐ نے ہاضم دوا(۲) آویشن(خوشبو دار جڑی بوٹی) اور کالا دانا منگوایا کیونکہ سفیدی والا یا ثقیل کھانا کھاتے تھے تو مذکورہ چیزوں کو پیس کر رکھتے تھے اور اس میں موٹا نمک ملاتے اور اپنے کھانے کا آغاز اس آمیزے سے کرتے اور فرمایا کرتے تھے: جب میں یہ چورن کھالیتا ہوں تو مجھے کوئی خوف نہیں ہوتا کہ کیا کھایا ہے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم فرماتے تھے:’’یہ چورن معدے کو طاقت ور بناتا ہے،بلغم کو ختم کرتا ہے اور لقوے سے محفو ظ رکھتا ہے۔‘‘

جو چیزگھبراہٹ کو ختم کرنے لئے مفید ہے

طب الائمتہ:محمد ابن مسکان حلبی سے نقل ہے کہ امام کے ایک محب کے جواب میں جس نے کہا تھا کہ: اے سبطِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم! میری ایک بیٹی ہے جس کے لئے میرا دل دکھتا ہے اور میں اس کے لئے بہت پریشان ہوں کیونکہ دن رات کے اکثر اوقات میں اس پر گھبراہٹ طاری رہتی ہے اگر آپؑ مصلحت سمجھتے ہیں تو خدا سے اس کے لئے دعا کیجئے کہ خدا اسے شفا عطا کرے۔امام ؑ نے اس کے لئے دعا کی اور فرمایا: اس سے کہو کہ رگ کھلوائے کیونکہ اس سے تمہاری بیٹی کو فائدہ ہوگا۔ فصل تیسری

آنکھ

آنکھ میں پوشیدہ حکمتیں

امام علی علیہ السلام: اس انسان کی خلقت پر حیران ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا! ایک چربی کے ٹکڑے سے دیکھتا ہے،ایک گوشت کے ٹکڑے سے بولتا ہے،ایک ہڈی کے ٹکڑے کی مدد سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام: ہندوستانی طبیب سے مناظرہ کرتے ہوئے فرمایا:پیشانی پر بال نہیں کیونکہ پیشانی سے گزر کر روشنی آنکھ تک پہنچتی ہے،اور پیشانی پر بل ڈالے گئے ہیں تاکہ سر سے بہنے والا پسینہ پیشانی کی سلوٹوں پر رک جائے اور آنکھوں میں جائے یہاں تک کہ انسان اس پسینے کو صاف کرلے جیسے زمین پر نہریں پانی کو اپنے اندر محبوس کرلیتی ہیں۔
بھنویںآنکھوں کے اوپر بنائی گئی ہیں تاکہ آنکھوں کو جس قدر روشنی کی ضرورت ہے اتنی ہی پہنچے۔اے ہندوستانی!کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب شدید روشنی ہوتی ہے تو انسان اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ لیتا ہے تاکہ بحدِ ضرورت روشنی آنکھوں تک پہنچے۔
آنکھ کی ساخت بادام کی طرح ہے تاکہ سلائی کے ذریعے دوا آنکھ میں ڈالی جاسکے اور بیماری(انفیکشن) آنکھ سے ختم ہوسکے،اگر آنکھ چوکور یا گول ہوتی نہ سلائی اس میں ڈالی جاسکتی نہ دوا اس کے ہر حصّے تک پہنچ پاتی اور نہ بیماری جو آنکھ کو لگ جاتی ختم ہو پاتی۔
امام صادق علیہ السلام:مفضل ابن عمر:اے مفضل!اب ان حواس پر غور کروجو خدا وند عالم نے تمام مخلوقات کے درمیان میں سے فقط انسان کو عطا کئے ہیں اور انسان کو دوسری مخلوقات پر فوقیت دی ہے دیکھو تو کیسے آنکھوں کو مینار کے اوپر روشن چراغ کی مانند بنایا اور آنکھوں کو انسان کے سر میں قرار دیا تاکہ وہ ہر چیز کو تحت نظر قرار دے سکے اور نچلے اعضاء(جیسے ہاتھ اور پاؤں) میں آنکھ کو قرار نہ دیا کہ گزند اس تک پہنچے اور نچلے اعضاء کے ذریعے کام یا حرکت کرنے کی بنا پر آنکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے،اور اس کی قوت بینائی میں کمی واقع ہو،اسی طرح آنکھوں کو درمیانی اعضاء جیسے(پیٹ اور کمر) میں نہ رکھا کہ آنکھوں کو گھمانے اور چیزوں کے دیکھنے میں دشواری کا سامنا نہ ہو اب جبکہ ہماری آنکھ ان میں سے کسی اعضاء میں نہیں ہے اور تمام حواس کا مرکز سر ہے اور آنکھوں کے لئے اسی اعلیٰ ترین جگہ کا انتخاب کیا اور سر ہی تمام حواس کی آماجگاہ ہے۔
حواس بھی پانچ رکھے گئے پانچ چیزوں کو محسوس کریں تاکہ کوئی چیز محسوسات میں سے نہ رہ جائے۔آنکھ خلق کی گئی تاکہ رنگوں کو دیکھے،اگر رنگ ہوتے اور کوئی آنکھ انہیں دیکھ نہیں سکتی تو رنگوں کا کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔
کان خلق کئے تاکہ وہ آوازوں کو سن سکے اگر آوازیں ہوتیں مگر سننے کے لئے کان نہ ہوتے تو پھر آوازں کی کوئی ضرورت نہ ہوتی اور نہ ہی آوازوں سے کوئی مطلب سمجھ میں آتا نہ آوازیں ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت رکھتیں،دوسرے حواس بھی اسی طرح ہیں۔
دوسری طرف سے بھی معاملہ ایسا ہی ہے یعنی اگر آنکھیں ہوتیں لیکن رنگ نہ ہوتے تو آنکھوں کا کوئی فائدہ نہ ہوتا یا اگر کان ہوتے لیکن کوئی آواز نہ ہوتی تو کان کی کوئی افادیت نہ ہوتی تو دیکھو تو! کہ یہ حواس اور محسوسات ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور متناسب ہیں اور ہر حس کا کوئی محسو س ہے جو اس حس پر اثر انداز ہوتا ہے اور ہر محسوس کے لئے ضرور کوئی حس ہے جس کو حس محسوس کرتی ہے اس کے باوجود بعض چیزیں جیسے روشنی اور ہوا حواس اور محسوسات کے درمیان آپس میں رابطہ اور وسیلہ ہیں کیونکہ حواس اس کی کمک کے بغیر کامل نہیں ہوتے کیونکہ اگر رنگ پر پڑنے والی روشنی نہ ہوتی تو آنکھوں کو نہ دیکھ سکتی اور اگر ہوا نہ ہوتی تو کان آواز کو نہ سن سکتے۔
جو شخص بھی غور کرے اور ان چیزوں کے متعلق فکر کرے ان حواس اور محسوسات کے درمیان رابطے کو سمجھے اور ان چیزوں کے متعلق آگاہی پیدا کرے جو محسوس کو حواس تک پہنچانے میں مددگار ہوتے ہیں کیا اس کے علاوہ کچھ اور سمجھ سکتا ہے کہ خدا کی مخلوق ایک خاص مقصد کے تحت خلق ہوئی ہے؟
اے مفضل! ایک نابینا اور اس کے کانوں میں ہونے والے خلل کو ملاحظہ کرو
غور کرو کہ نہ اپنے قدم کو دیکھ پارہا ہے نہ ہی مختلف رنگوں کا فرق محسوس کرسکتا ہے نہ ہی خوبصورت مناظر کے حسن کو دیکھتا ہے نہ ہی اپنے سامنے کھڑے کو دیکھ پاتا ہے اور نہ دشمن کو دیکھ پاتا ہے اور نہ ہی اس کے حملے کو دیکھ رہا ہے اسی قسم کے دوسرے امور بھی انجام نہیں دے سکتا۔یہاں تک کہ اگر فکر و ذہن کی کارکردگی نہ ہوتی تو زمین کے کنارے پر پڑے ایک سنگ کی مانند ہوتا۔
اے مفضل!پلکوں کو دیکھو اور اس میں غور کرو اور دیکھو کیسے اس میں باریک باریک بال موجود ہیں جو آنکھ کی حفاظت کرتے ہیں اور کس طرح آنکھ کو ایک گہرائی میں محفوظ رکھا ہے اور پلکوں کے ذریعے اسے ڈھانپ رکھا ہے۔

ٓآنکھوں کی بعض بیماریوں کے اسباب

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:جو شخص مسئلہ قضا و قدر میں زیاد ہ سوچ بچار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی ہے جو سورج کی جانب غور سے دیکھے جتنازیادہ سورج کو دیکھے گا اتنی ہی اس کی بینائی کمزور ہوجائے گی۔
امام رضا علیہ السلام:رات کے وقت تُرنج کھانا بھینگے پن کا سبب بنتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضرت علی علیہ السلام کو نصیحت:اے علی! ایسا نہ ہو کوئی نزدیکی کے وقت اپنی بیوی کی شرم گاہ کی طرف نگاہ کرے بلکہ آنکھوں کو بند رکھے کیونکہ شرم گاہ کی طرف دیکھنا بچے کی نا بینائی کا سبب بنتی ہے۔
امام علی علیہ السلام:ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کی شرم گاہ کے اندر دیکھے کیونکہ ممکن ہے کہ ایسی چیز دیکھو جو تمہارے لئے خوشگوار نہ ہو اور شاید نابینائی کا سبب بن جائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضرت علی علیہ السلام کو نصیحت: اے علی علیہ السلا :ظہر کے بعد بیوی سے ہم بستری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس عمل کے نتیجے میں اولادہو تو وہ بھینگی ہوگی اور شیطان انسان کے بھینگے پن سے خوش ہوتا ہے۔
امام رضا علیہ السلام:سردی اور خزاں میں رات کے ابتدائی حصّے میں ہمبستری نہ کرو کیونکہ اس وقت معدہ اور گیس پُر ہیں اور یہ بات نا پسندیدہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بینائی میں کمزوری اور عقل میں کمی کا خطرہ بھی ہے۔
(وہ چیزیں جو بینائی میں اضافہ کرتی ہیں: بالوں کو چھوٹا کرنا)

آنکھوں کی بعض بیماریوں سے بچاؤ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم: چار چیزوں کو پسند نہ کرو.......آنکھوں کی تکلیف،کیونکہ نابینائی کی رگوں کو ختم کردیتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم : جو کوئی بھی جمعر ات اور ہفتے کے روز ناخن کاٹے اور مونچھوں کو چھوٹا کرے دانت اور آنکھوں کی تکلیف سے محفوظ رہے گا۔
امام محمد باقر علیہ السلام:جو شخص ہر جمعرات مستقل طور پر ناخن کاٹے آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا نہ ہوگا۔
کتاب من لا یحضرہالفقیہ:عبداللہ بن یعفور نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کی:میری جان آپؑ پر قربان!کہا جاتا ہے صبح صادق سے طلوع خورشید کی تعقیبات سے زیادہ کوئی چیز روزی کے نزول کا سبب نہیں ہوتی۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں! لیکن میں اس سے بہتر چیز بتاتا ہوں:جمعہ کے دن نا خن اوہ مونچھیں کاٹنا اور جمعرات کو ناخن کاٹنا آنکھ کی تکلیف کو دور کرتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام:جمعہ کے دن ناخن کاٹنا جذام،کوڑھ اور نابینائی سے امان میں رکھتا ہے۔اگر کاٹنے کی ضرورت نہ ہو تو انہیں رگڑ لیا جائے۔
الکافی:علی بن اسباط سے نقل کیا کہ خراسان میں امام رضا علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جبکہ میں آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا تھا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: چاہتے ہو تمہیں ایسی چیز کی طرف راہنمائی کروں جس سے آنکھوں کی تکلیف بر طرف ہوجائے؟
میں نے کہا: کیوں نہیں
امام نے فرمایا: ہر جمعرات کو ناخن کاٹا کرو۔
راوی کہتا ہے: میں نے اس عمل کیا اور اس کے بعد سے آج تک آنکھ کی تکلیف میں مبتلا نہ ہوا۔
امام صادق علیہ السلام: سونے سے پہلے سرمہ لگانا آنکھوں سے پانی بہنے کو روکتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام: جو شخص ااثمد کا سرمہ استعمال کرے جو مشک ملا نہ ہو جب تک استعمال کرتا رہے گاموتیا سے محفوظ رہے گا۔
امام صادق علیہ السلام:مرد،جب روزہ رکھتا ہے تو اس کی بینائی میں ضعف طاری ہوتا ہے لیکن جب میٹھی چیز سے افطار کرتا ہے تو اس کی بصار ت بحال ہوجاتی ہے۔
مکارم الاخلاق:ابو بصیر امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:زیادہ چھیکنا ، انسان کو پانچ بیماریوں سے امان میں رکھتا ہے پہلی جذام، دوسری وہ گیس جو چہرے اور سر میں تکلیف کا سبب بنتی ہے،تیسری موتیا کا پانی،چوتھی ناک کے نتھنوں میں سختی اور پانچویں آنکھوں سے بال نکلنا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:اگر چاہتے ہو چھینک کم ہوجائے تو( مرز نجوش) کا تیل ناک میں ڈالو۔
میں نے پوچھا: کتنا؟
امام نے فرمایا : تقریباً آدھا مثقال یا 0.5 گرام۔
راوی کہتاہے: اس کام کو پانچ دن انجام دیا اور بیماری ختم ہوگئی۔

2 comments:

  1. معلومات بہت مفید ہیں حوالہ جات کے ساتھ لکھیں تو بہتر ہوگا

    ReplyDelete
  2. معلومات بہت مفید ہیں حوالہ جات کے ساتھ لکھیں تو بہتر ہوگاتاکہ اسے تحقیق کے لئے
    سپورٹینگ مواد کے طور پر پیش کیا جائے

    ReplyDelete